کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس حدیث کے بارے میں کہ آپ ﷺ نے فرمایا «جب اللّٰہ تعالیٰ تم میں سے کسی کے لیے ایک طرف سے رزق کا سبب پیدا کرے تو وہ اسے اس وقت تک ترک نہ کرے جب تک اس میں تغیر اور خرابی پیدا نہ ہو جا ۓ»پس اگر کسی نے بغیر کسی مجبوری کے اپنے کاروبار یا نوکری کو ترک کیا تو شرعا یہ کیسا ہے ۔؟
سوال
واضح رہے کہ سود کے بارے میں فقہائے کرام نے احادیث مبارکہ سے ایک قاعدہ کلیہ مستنبط کیا ہے کہ دوہم جنس چیزوں کا ٓپس میں تبادلہ کرنا اس میں تفاضل (کمی زیادتی ) حرام ہے اورغیرہم جنس چیزوں میں نسیئہ حرام ہے ۔چونکہ چھوٹے گوشت اور بڑے گوشت کی جنس مختلف ہے اس لیے اس میں (کمی زیادتی ) جائز اور نسیئہ حرام ہے ۔
الجواب وباللہ التوفیق
وعلته ) أي علة تحريم الزيادة (القدر)ا لمعهود بكيل أو وزن (مع الجنس فإن وجدا حرم الفضل) أي الزيادة (والنساء) بالمد التأخير فلم يجز بيع فیہم بقفيزین منه متساويا وأحدهما نساء۔۔۔۔۔(وإن وجد أحدهما) أي القدر وحده أو الجنس (حل الفضل وحرم النساء) ولو مع التساوي۔
( الد رالمختارکتاب الربا ج 5 ص 172)
قولہ( ویجوزبیع اللحمان المختلفۃ بعضا ببعض متفاضلا) یعنی الحم البقرۃ بلحم الابل او بلحم الغنم اما لحم البقرۃ والجاموس جنس واحد وان اختلف الوانھا
(الجوھرۃ النیرہ شرح مختصر القدوری،کتاب البیوع،باب الربا ص ۲۷۷)