کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ تین کواٹرز میں مختلف لوگ رہتے ہیں ۔اور وہاں پر ایک پانی کی مشترکہ مشین ہے ،تمام لوگ باری باری ایک مہینہ مشین لگواتے ہیں ، ان میں دو گھروں کی بجلی صحیح ہے ،جبکہ ایک گھر والے چوری کی بجلی استعمال کرتے ہیں ۔تو جب چوری والے کا نمبر آجائے تو پانی کے استعمال کے وقت باقی کوارٹرز والے کیا کریں ، اس پانی سے وضو وغیرہ کرسکتے ہیں یا نہیں؟
سوال
واضح رہے جس طر ح عام چوری کرنا گناہ کبیرہ اور حرام ہے اسی طرح بجلی چوری کرنا یا بغیر میٹر کے غیر قانونی بجلی استعمال کرنا بھی شرعاً جائز نہیں بلکہ حرام اور گناہِ کبیرہ ہے جس سے بہر صورت احتراز لازم ہے۔ تاہم چوری کی بجلی سے حاصل شدہ پانی نجس نہیں ،اس لیے اس سے وضو اور غسل کرکے نماز اور دیگر عبادات ا دا ہوجاتی ہیں ۔ البتہ ثواب میں کمی آتی ہے ۔ تا ہم باقی کواٹرز والوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اس شریک کو سمجھا ئیں کہ چوری کی بجلی استعمال کرنا گناہ ہے ۔ پھر بھی اگر وہ با ز نہیں آتا تو خود کو اس سے علیحدہ کرلیں ۔
الجواب وباللہ التوفیق
لكل (شق نهر لسقي أرضه منها أو لنصب الرحى إن لم يضر بالعامة) لأن الانتفاع بالمباح إنما يجوز إذا لم يضر بأحد كالانتفاع بشمس ۔
(رد المحتار على الدر المختار ج 6 ص 438)
الصلاة في أرض مغصوبة جائزة ولكن يعاقب بظلمه، فكما كان بينه و بين الله تعالى يثاب،وما كان بينه وبين العباد يعاقب ۔