قضاء نمازوں کے فدیہ کو مسجدیا مدرسے میں خرچ کرنے کا حکم
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر ایک شخص پر نمازوں کا فدیہ لازم آئے۔ تو کیا اس فدیہ کی رقم کو مسجد یا مدرسے کے لئے استعمال کرنا جائز ہے ؟مثلاً مسجد یا مدرسے کے لئے قالین لینا ، قران مجید یارحیل لینا وغیرہ؟
سوال
واضح رہے کہ اگر ایک شخص پر نمازوں کا فدیہ لازم آ جائے یعنی کسی عذر کے بنا پر نماز رہ گئی ہو اور فدیہ کی وصیت کر جائے تو نماز یا روزوں کے فدیہ یا اُن کی قیمت کا ایسے شخص کو مالک بنانا ضروری ہے جو مستحق زکوۃ یعنی صاحب نصاب نہ ہو۔
لہذا صورت مسئولہ میں اگر ایک شخص پر نمازوں کا فدیہ لازم ہوا ہو تو پھر اس رقم کو مسجد یا مدرسے سے میں لگانا یا اس کے مصارف میں استعمال کرنا درست نہیں۔کیونکہ مسجد مدرسہ وغیرہ تملیک اور قبضہ نہیں کر سکتے، البتہ مدرسے میں طلباء کو دیا جائے یا مدرسے یا مسجد میں اگر ایک فقیر شخص کو مالک بنایا جائے اور پھر وہ شخص اپنی رضامندی سے اس رقم سے مدرسے یا مسجد کے لئے قالین ،قرآن مجید یا قرآن مجید کے لئے رحیل لے لےتو جائز ہوگا۔
الجواب وباللہ التوفیق
“(قوله: أي مصرف الزكاة والعشر)… وهو مصرف أيضاً لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة، كما في القهستاني”
“ولا يبني بها مسجد ولا يكفن بها ميت لانعدام التمليك وهو الركن،(ولا يبنى بها مسجد): أي لا يبنى بالزكاة مسجد، لأن الركن في الزكاة التمليك من الفقير ولم يوجد”