کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی کا دماغی توازن ٹھیک نہیں ہے، یہ مریض جس کا نام شوکت ولد حاجی رسول محمد ہے۔اس کی حالت یہ ہے کہ یہ کاروبار بھی کرتا ہے ،گالی گلوچ کسی کو نہیں دیتا، البتہ اس کو ڈاکٹر کو کے پاس لے کر گئے ،تو ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اس کو دماغی مسئلہ ہے اور علاج معالجہ جاری ہے۔نیز ڈاکٹر نے اس کو ایک سرٹیفیکیٹ دیا ہے کہ اس کا دماغ سویا ہوا ہے ، یعنی دماغ کا مسئلہ ہے اور اس دوران اس نے بیوی کو کئی بار کہا کہ جا تمہیں تو میں نے طلاق دی ہے۔آپ حضرات رہنمائی فرمائیں کہ یہ طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ طلاق کے واقع ہونے کے لیے ضروری ہے کہ طلاق دینے والا عاقل ہو یعنی اس کا دماغی توازن ٹھیک ہو، پس اگر کوئی آدمی ایسا ہے کہ اُس کا دماغی توازن ٹھیک نہ ہواور طلاق اور دیگر امور کا علم نہ رکھتا ہو یا ایسی حالت کبھی کبھی اس پر آتی ہو اور وہ اسی حالت میں طلاق کے الفاظ کہہ دے تو ایسے آدمی کی دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ لیکن جس وقت دماغ درست ہو اور دیگر معاملات صحیح طریقے سے انجام دے سکتا ہوتو اگر ایسی حالت میں طلاق دی جائے تو وہ طلاق واقع ہوتی ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں جس وقت اس شخص نے بیوی کو’’جا تمہیں تو میں نے طلاق دی ہے‘‘کے الفاظ کہے تھے، اس وقت بیماری کی وجہ سے اس کا دماغی توازن ٹھیک نہیں تھا(یعنی ایسی بیماری ہو کہ اس کے ہوش وحواس قائم نہ ہو اور طلاق وغیرہ کا ادراک نہ کر سکتا ہو) اور ڈاکٹر بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہوں تو ان الفاظ سے اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے اور ان دونوں کا نکاح قائم ہے۔ لیکن اگر اس وقت اس کا دماغی توازن ٹھیک تھا(یعنی طلاق کا ادراک کر سکتا تھا) تو اگرچہ یہ دماغی مریض ہے پھر بھی اس کی بیوی پرطلاق واقع ہو چکی ہے، صرف دماغ کی نارمل بیماری کی وجہ سے چھٹکارا پانا مشکل ہے۔
(فصل فيمن يقع طلاقه وفيمن لا يقع طلاقه) يقع طلاق كل زوج إذا كان بالغاً عاقلاً سواء كان حرا أو عبداً طائعاً أو مكرهاً، كذا في الجوهرة النيرة۔
(فتاوى هنديہ:۱/۳۵)
عن قتادة قال: «الجنون جنونان، فإن كان لا يفيق، لم يجز له طلاق، وإن كان يفيق فطلق في حال إفاقته، لزمه ذلك»
(مصنف ابن أبي شيبة:۴/۷۳)
ولا يقع طلاق الصبي وإن كان يعقل والمجنون والنائم والمبرسم والمغمى عليه والمدهوش، هكذا في فتح القدير
(فتاوى هنديہ :۱/۳۵۳)
المعتوة لا يقع طلاقه أيضا وهذا إذا كان في حالة العته أما في حالة الإفاقة والصحيح أنہ واقع هكذا في الجوهرة النيرة
(فتاوی ھندیہ:۱/۳۵۳)
ویقال فیمن اختل عقلہ لکبر أو لمرض أو لمصیبۃ فأجابتہ: فما دام في حال غلبۃ الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقوالہ وإن کان یعلمھا ویریدھا لأن ھذا المعرفۃ والإرادۃ غیر معتبرۃ لعدم حصولھا عن الإدراک الصحیح کما لا یعتبر من الصبي العاقل
(رد المحتار علی الدر المختار:۴/۴۳۹)
قوله (والمجنون ) قال في التلويح : الجنون اختلال القوة المميزة بين الأمور الحسنة والقبيحة المدركة للعواقب، بأن لا تظهر آثارہ و تتعطل أفعالها إما لنقصان جبل عليه دماغه في أصل الخلقة، وإما الخروج مزاج الدماغ عن الاعتدال بسبب خلط أو آفة ، وإما لإستيلاء الشيطان عليه وإلقاء الخيالات الفاسدة إليه بحيث يفرح ويفزع من غير ما يصلح سببا
(رد المحتار علی الدر المختار:۱۰/۴۵۸)