بِسْمِ ٱللَّٰهِ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

بیٹے کو عاق کر کے میراث سے محروم کرنا

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلےکے بارے میں کہ نافرمان بیٹے کو عاق کرنا جائز ہے؟اور عاق کرنے سے وہ میراث سے محروم ہو جائے گا یا نہیں؟

سوال

واضح رہے کہ بلاوجہ شرعی بیٹے کو عاق کرنا شرعا گناہ ہے،اور عاق کو بھی وارثت میں حصہ ملتا ہے،کیونکہ شریعت میں میراث ایک اضطراری حق ہے،اس لیے کوئی شخص اس حق کو ختم نہیں کرسکتا،لہٰذااگر باپ کسی بیٹے کو عاق کرے تو اس سے وہ میراث سے محروم نہ ہوگا،چنانچہ عاق شدہ بیٹا بھی میراث کا حقدار ہوگا۔تاہم اگر باپ نے زندگی میں اپنی سب جائیداد اور مال ودولت دوسرے ورثا میں تقسیم کرکے ان کو قبضہ دے دیا ہو۔اور عاق کردہ بیٹے کو کچھ بھی نہ دیا ہو تو پھر باپ کے مرنے کے بعد عاق شدہ بیٹے کو مطالبہ کا حق نہیں۔

الجواب وباللہ التوفیق

وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ” من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة.

( رواه ابن ماجه، باب الوصایا، ج:1،ص:266)۔

الإرث جبریی لا یسقط بالإسقاط۔

(تکملۃ ردالمحتار،کتاب الدعوی ،ج:11، ص:678)۔

والدلیل علی ذالک

جامعہ سے صدقات، خیرات، عطیات اور زکوٰة وغیرہ کی مد میں تعاون کے لیے

Scroll to Top