کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کہ بارے میں کہ فریقین کےما بین تنازعہ کھڑا ہوا، جس میں دوطرفہ فائرنگ ہوئی، جس میں ایک فریق کا آدمی زخمی ہوا۔ اب جرگہ نے فیصلہ کیا کہ فریق مخالف سات (۷)لاکھ روپے دے گا، اور اسی کے ساتھ دو(۲)بھینس اور سات (۷)من چاول پکا کر خیرات کرے گا ،اس مسئلے کی شرعی حیثیت واضح فرما دیجیے؟
واضح رہے كہ مذھب حنفی کے عام قول کے مطابق تعزیر بالمال ناجائز ہے،لیکن بعض مقامات ایسے ہوتے ہیں کہ وہاں پر تعزیر بالمال کہ بغیر اس چیز کا تدارک اور انسداد نہیں ہوتا ،لہذا اگر خاص مقامات اور خاص ضروریات کے مطابق اگر موجودہ دور میں مالی جرمانہ عائد کیاجائے تو امید ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔البتہ اس میں تین صورتیں ہیں 1)) کہ یہ جرمانہ ظالم سے لیا جائے نہ کہ مظلوم سے (2) کہ ظالم سے مال لے کر مظلوم کو دیاجائے اس کی حوصلہ افزائی کے لئے (3)اگر مظلوم کو مال دینے کی کوئی صورت نہ ہو تو مفاد عامہ میں خرچ کیا جائے۔
لہٰذا صورت مسئولہ میں جرگے کی جانب سے مالی جرمانہ عائد کرنے اورلوگوں کو کھانا کھلانے کی شرط عائد کرنے میں اگر چہ اس میں دلی رضامندی شامل نہ ہوگی،لیکن فتنے فساد کے خاتمے کے لئے ایسے شخص پر بطور جرگہ کھانا کھلاناگنجائش رکتا ہے،جیسے کسی کنجوس شخص کی دعوت میں شرکت کرنا کہ دعوت کرنے کے باوجود اس کی دلی رضامندی شامل حال نہیں ہوتی ، لیکن شرکاء کے لئےکھانے کی اجازت ہوتی ہے۔
سمعت عن ثقة أن التعزير بأخذ المال إن رأى القاضي ذلك أو الوالي جاز ومن جملة ذلك رجل لا يحضر الجماعة يجوز تعزيره بأخذ المال اهـ.
(البحرالرائق کتاب الحدود ج ۵ ص ۴۴)
لو ضافه أمير فذبح عند قدومه ، فإن قصد التعظيم لا تحل وإن أضافه بها وإن قصد الإكرام تحل وإن أطعمه غيرها
(ردالمحتار ج ۲۶ ص ۲۰۲)
يجوز التعزير بأخذ المال وهو مذهب أبي يوسف وبه قال مالك، ومن قال: إن العقوبة المالية منسوخة فقد غلط على مذاهب الأئمة نقلا واستدلالا وليس بسهل دعوى نسخها. وفعل الخلفاء الراشدين وأكابر الصحابة لها بعد موته – صلى الله عليه وسلم – مبطل لدعوى نسخها، والمدعون للنسخ ليس معهم سنة ولا إجماع يصحح دعواهم إلا أن يقول أحدهم: مذهب أصحابنا لا يجوز
(معین الحکام ج ۱ ص ۱۹۵)