سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک ڈاکٹر کا سوال ہے ، وہ کہتا ہے کہ ہم جب مریض کے دانت نکالتے ہیں ، تو پھر دانت کی جگہ سے باریک خون نکلتاہے ، ہم مریض کو کہتے ہیں کہ اڑتالیس ( 48 ) گھنٹے تک وہی خون نگل لیا کریں ،تاکہ ان کا زخم جلدی ٹھیک ہو جائے ، اگر وہ خون تھوکتے ہیں تو پھر زخم ٹھیک نہیں ہوتا ،تو آیایہ خون مریض نگل سکتا ہے ، یا اسے تھوکے گا ؟ شریعت اس خون کے بارے میں کیا حکم دیتا ہے؟
واضح رہے کہ اگر کسی شخص کادانت نکالنےکے بعد خون آنا شروع ہوجائے اور یہ خون تھوک پر غالب نہ ہو تو اس کے نگلنے میں کوئی حرج نہیں ، البتہ اگر یہ خون تھوک پر غالب ہو تو اس صورت میں خون نگلنا جائز نہیں ، کیونکہ خون نجس اور حرام ہے ، اس لیے اس کا نگلنا جائز نہیں لہذا صورتِ مسئولہ میں دانت کے نکالنے سے جو خون نکلتا ہے اگر یہ خون تھوک پر غالب ہو ، تو پھر اس کا نگلنا جائز نہیں ، کیونکہ وہ خون کے زمرے میں آتا ہے اور خون پینا حرام ہے ، جب تک کے جان کا خطرہ نہ ہو،اور عرفاً ایسے زخموں سے کسی کے جان کو خطرہ لاحق نہیں ہوتا ،لہذا مریض کو چاہیئے کہ وہ ایسے خون کو تھوکے اور اس کے نگلنے سے اجتناب کرلے
“إ ِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِوَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغِ وَلَاعَادفَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ۔”
(سورۃ البقرۃ ، الآیۃ : 173 )
“عن ابی الدرداء رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللہ ﷺ ” ان اللہ انزل الداء والدواء ، فجعل لکل داء دواء ، فتداووا ، ولا تتداووا بحرام ” قال الشیخ السھارنفوری رحمہ اللہ تحت الحدیث المذکور : ” فما حرم الانتفاع بہ مطلقاً کالخمر والدم والمیتۃ ، حرم الانتفاع بہ مطلقاً کیف ما کان
(بذل المجھود ، ج5 ،ص : 4 )
” قال ابو حنیفۃ وابویوسف ومحمد وزفر والشافعی فیما رواہ عنہ المزنی : لا یاکل المضطر من المیتۃ اِلاَّ مقدار ما یمسک بہ رمقہ ۔”
( احکام القرآن للجصاص ،ج1 ، ص : 158 )