کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ خاتون کے لیے ٹیلی فون آپریٹر کی جاب کرنا درست ہے؟
واضح رہے کہ ا سلامی نقطۂ نظر سے، خواتین کا کسی بھی شعبے میں کام کرنا اُس وقت جائز ہوتا ہے جب شریعت کے اصولوں کی پابندی کی جائے ۔
ٹیلی فون آپریٹر کا کام اگر درج ذیل شرائط کے ساتھ ہو تو اس کی گنجائش ہے ۔
ماحول اور حالات اسلامی اصوکے مطابق ہوں۔•
عورت اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کرتی ہو ۔•
شریعت کے احکامات کی مکمل پا بندی کی جائے۔•
اگر یہ تمام شرائط پوری کی جائیں تو یہ کام شرعی لحاظ سے قابلِ قبول ہے ، لیکن عام طور پر کال سنٹر میں ان تمام شرائط کا پایا جانا مشکل ہے ،کیونکہ اس میں مرد و زن کا اختلاط ہوتا ہے، جبکہ شریعت میں مردوں کے ساتھ صرف بقدر ضرورت اور سخت لہجے میں بات کرنے کا جواز ہے ،جبکہ اس نوکری کے اصول میں سے یہ ہے کہ کال آپریٹر نرمی سے بات کرےگا ۔ اور شریعت میں عورت کا مردوں کے ساتھ بات چیت میں نرمی کا پہلو اختیار کرنا جائز نہیں ہے ۔
لہذا اگر کمپنی والے دیگر اسلا می اصولوں کے ساتھ ساتھ اس شر ط کا بھی خیال رکھے پھر تو جائز ہے ،لیکن پھر بھی لڑکی کے لیے اس طر ح کی نوکری مناسب نہیں ہے۔
قال – عليه الصلاة والسلام – «التسبيح للرجال، والتصفيق للنساء» فلا يحسن أن يسمعها الرجل. اهـ. وفي الكافي: ولا تلبي جهرا لأن صوتها عورة، ومشى عليه في المحيط في باب الأذان بحر. قال في الفتح: وعلى هذا لو قيل إذا جهرت بالقراءة في الصلاة فسدت كان متجها، ولهذا منعها – عليه الصلاة والسلام – من التسبيح بالصوت لإعلام الإمام بسهوه إلى التصفيق اهـ وأقره البرهان الحلبي في شرح المنية الكبير، وكذا في الإمداد؛ ثم نقل عن خط العلامة المقدسي: ذكر الإمام أبو العباس القرطبي في كتابه في السماع: ولا يظن من لا فطنة عنده أنا إذا قلنا صوت المرأة عورة أنا نريد بذلك كلامها، لأن ذلك ليس بصحيح، فإذا نجيز الكلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة. اهـ. قلت: ويشير إلى هذا تعبير النوازل بالنغمة ۔
( شامی ج 1ص 406)
و على هذا يخرج الاستئجار على المعاصي أنه لايصح لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعًا كاستئجار الإنسان للعب واللهو، وكاستئجار المغنية، والنائحة للغناء، والنوح
( بدائع الصنائع ج 4 ص 189)